Wednesday 4 July 2012

یہ جو ہم سر تیری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں

یہ جو ہم سر تیری چوکھٹ سے لگائے ہوئے ہیں
یہی سمجھو کہ زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
ہم نے اِس دل کو کہیں اور لگایا ہوا ہے
اور یہ ہاتھ کہیں اور اٹھائے ہوئے ہیں
تجھے دیکھوں تو مجھے یاد یہ کون آتا ہے
تُو نے یہ رنگ بھلا کس کے چرائے ہوئے ہیں
کارِ دنیا نے ہمیں مہلتِ یک خواب نہ دی
سو کہیں کھوئے ہوئے ہیں کہیں پائے ہوئے ہیں
کس لئے یاد دلاتے ہو، ابھی رہنے دو
کیا ہوا، ہم جو کوئی بات بھُلائے ہوئے ہیں
ہم ہی گوش بر آواز نہیں تھے ورنہ
تم نے پہلے بھی یہ گیت سنائے ہوئے ہیں

ابرار احمد

No comments:

Post a Comment