Tuesday 3 July 2012

میرے اندر سانس لینا چھوڑ دے

میرے اندر سانس لینا چھوڑ دے
اے اداسی! میرا پیچھا چھوڑ دے
چاند کیا آنگن میں اترا ہے کبھی 
سن مری جاں! یہ تمنا چھوڑ دے
تو کبھی سوکھے ہوئے پتوں پہ لکھ 
سبز شاخوں کا قصیدہ چھوڑ دے
ایک دن رکھا مرے شانے پہ سر 
اور یہ بولی کہ دنیا چھوڑ دے 
زندگی اب تھک گیا ہوں میں بہت
اب خدارا! یہ تماشا چھوڑ دے
یہ محبت ہے تجارت تو نہیں 
کیا کسی کے ہاتھ آیا چھوڑ دے
اُس کی الفت میں نہ اتنی دور جا
واپسی کا ایک رستہ چھوڑ دے

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment