Friday 27 July 2012

حکمراں انصاف سے خود ہی جہاں عاری ہوا

حکمراں انصاف سے خود ہی جہاں عاری ہوا 
سانس لینا خلق کا، اُس دیس میں بھاری ہوا 
مُقتدر بالحِرص ہیں جو جبر سے اُن کے، یہاں 
گردنوں کے گِرد طوقِ عجز ہے دھاری ہوا 
ختم کر دے دُوریاں بھی دو دھڑوں کے درمیاں 
اور فسادِ دیہہ کا باعث بھی پٹواری ہوا 
کھاؤ آدھا پیٹ، آدھا ہو نثارِ دیوتا 
پاپ جھڑوانے کا نُسخہ، ہائے کیا جاری ہوا 
خامشی آمر کی ماجدؔ گُل کِھلائے اور ہی 
اور سخن ایسا کہ جو وجہِ دل آزاری ہوا 

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment