Tuesday 3 July 2012

ترا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خوشبو

یادیں

تِرا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خُوشبُو
وہ خواب جن میں میرا پیکرِ خیال ہے تُو
ستا رہی ہیں مجھے بچپنے کی کچھ یادیں
پچاس سال کی یادوں کے نقش اور نقشے
وہ کوئی نصف صدی قبل کا زمانۂ ہُو
وہ گرمیوں کے شب و روز، دوپہر کی وہ لُو

وہ گرم و خشک مہینے وہ جیٹھ، وہ بیساکھ
کہ حافظے میں کبھی آہ ہیں، کبھی آنسُو
وہ زائیں زائیں کے کتنے مہیب زناٹے
فضا کا ہول، ہوا کی وہ وحشتیں ہر سُو
وہ سائیں سائیں کے کتنے عجیب سناٹے
وہ سنسنی، وہ پر اسرار ایک عالمِ ہُو
وہ کھڑکیوں میں ہواؤں کی سرکشی، تندی
وہ بام و در پہ مسلط جہنمی جادُو
وہ پیچ و تاب بگولوں کا میرے آنگن میں
چڑیلیں گھر میں گُھس آئی ہیں کھول کر گیسُو
وہ لو کا زور کہ سارے کواڑ بجتے ہیں
کہ جیسے لشکرِ جنات کا عمل ہر سُو
وہ شور جیسے بگولوں میں بُھوت رقصاں ہوں
وہ فاہ فاہ وہ ہاہ ہاہ وہ ہونک وہ ہُو ہُو
گُزر رہا ہے تصوّر سے جیٹھ کا موسم
اور اس سمے میں مجھے یاد آ رہا ہے تُو

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment