Saturday 28 July 2012

بھلا کیوںکر نہ ہوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی

بھلا کیونکر نہ ہوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ، زُلفِ مُشکبار اس کی
امیدِ وصل پر، دل کو فریبِ صبر کیا دیجے؟
ادا وحشی صفت اُس کی، نظر بیگانہ وار اس کی
جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی
محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الہٰی! آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اس کی
کوئی کیوںکر بھلا دے، ہائے ایسے کی محبت کو
وفائیں دلنواز اس کی، جفائیں خوشگوار اس کی
ہمیں عرضِ تمنا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو؟
ادائیں فتنہ ریز اس کی، نگاہیں حشر بار اس کی
بُرا ہو، اس تغافل کا، کہ تنگ آ کر یہ کہتا ہوں
مجھے کیوں ہو گئی الفت، مرے پروردگار اس کی
مۓ الفت کے مستانوں کو میخانے سے کیا مطلب
ادا، روحِ نشاط اُس کی، نطر جانِ بہار اس کی
یہاں کیا دیکھتے ہو، ناصحو! گھر میں دھرا کیا ہے
مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اس کی
تغافل کا گلہ، کس کو نہیں، کس کس کو سمجھاؤں
نگاہیں مُنتظر اس کی، اُمیدیں بے قرار اس کی
مجھے تو عشق پیچاں! ایسے بل کھانے نہ آتے تھے
بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے، زُلفِ مُشکبار اس کی؟
انہیں کوچوں میں کل اخترؔ کو رسوا ہوتے دیکھا تھا
وہ آنکھیں اشکبار اس کی، وہ باتیں دلفگار اس کی

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment