Sunday 8 July 2012

زمیں پہ بوجھ تھے کیا زیر آسماں رہتے

زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے
یہ کائنات پرائی تھی، ہم کہاں رہتے؟
ہم ایسے بے سروساماں جہانِ امکاں میں
ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے
جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے
جو بدگماں تھے بہ ہر حال بدگماں رہتے
کوئی فریبِ وفا ہی میں مبتلا رکھتا
تو اُس کے جور و جفا پر بھی شادماں رہتے
پکارتا جو کوئی سُوئے دار بھی دل سے
تو نقدِ جان لیے سر بہ کف رواں رہتے
کسی کے ایک اشارے پہ جل بجھے ہوتے
بلا سے بعد کے منظر دھواں دھواں رہتے
مگر یہ سود و زیاں کا جہان تھا عاجزؔ
یہاں خلوص کے سجدے بھی رائیگاں رہتے

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment