Saturday 7 July 2012

میں کہ پر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں

میں کہ پُر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں
اب کہ ڈُوبا ہوں تو سُوکھے ہوئے دریاؤں میں
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں
چاکِ دل سی کہ نہ سی زخم کی توہین نہ کر
ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں
ذکر اُس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فرازؔ
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment