کوئی خوشی، نہ کوئی غم رہا ہے آنکھوں میں
کچھ اب کے اور ہی عالم رہا ہے آنکھوں میں
سرہانے چھوڑ گیا ہے ادھوری تعبیریں
وہ ایک خواب جو بَرہم رہا ہے آنکھوں میں
تمام عالمِ
اِمکاں، اِک آئینہ خانہ
یہ کس خیال نے دُھندلا دیے سب آئینے
خوشی کا رنگ بھی مدھم رہا ہے آنکھوں میں
ادھر سے دن میں گزرتے ہوئے بھی خوف آئے
عجیب ہُو کا عالم رہا ہے آنکھوں میں
کن آبگینوں میں اُترا ہے عکس ماہِ دو نیم
یہ کس کا ابروئے پُرخم رہا ہے آنکھوں میں
وہ آرزو کہ جسے کوئی نام دے نہ سکوں
وہ ایک نقش کہ مبہم رہا ہے آنکھوں میں
مصحفؔ اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment