Saturday 14 July 2012

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا
فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا
سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج ؟
حال ہم دونوں کا اِک جیسا ہے تم بھی سوچنا
پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا، سوچوں گا میں
دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا
کس قدر برہم ہیں لہریں سوچ کر آتا ہے خوف
اور پانی کس قدر گہرا ہے تم بھی سوچنا
اپنے روز و شب گزر سکتے ہیں تنہا کس طرح
تجربہ میرا بھی یہ پہلا ہے تم بھی سوچنا
ہاں نہیں کے درمیانی راستے پر بیٹھ کر
کس کے حق میں کیا نہیں اچھا ہے تم بھی سوچنا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment