Tuesday 3 July 2012

کچھ خوشی کے سائے میں اور کچھ غموں کے ساتھ ساتھ

کچھ خوشی کے سائے میں اور کچھ غموں کے ساتھ ساتھ
زندگی کٹ ہی گئی ہے الجھنوں کے ساتھ ساتھ 
آج تک اُس کی تھکن سے دُکھ رہا ہے یہ بدن 
اک سفر میں نے کیا تھا خواہشوں کے ساتھ ساتھ
کس طرح کھایا ہے دھوکا کیا بتاؤں میں تمہیں
دوستوں کے مشورے تھے، سازشوں کے ساتھ ساتھ
کس طرح رکھے ہوئے ہیں چاند سورج اک جگہ
نفرتیں بھی پل رہی ہیں چاہتوں کے ساتھ ساتھ
اس دفعہ ساون میں تیری یاد کے بادل رہے
اس دفعہ میں خوب رویا بارشوں کے ساتھ ساتھ
وہ جنہیں میں دوست کہتا تھا بڑے ہی مان سے
صف بہ صف وہ بھی کھڑے تھے دشمنوں کے ساتھ ساتھ
کاش پھر سے لوٹ آئیں پھر وہی بچپن کے دن
بھاگنا پھولوں کی خاطر تتلیوں کے ساتھ ساتھ
شہر میں کچھ لوگ میرے چاہنے والے بھی ہیں
پھول مجھ کو لگ رہے ہیں پتھروں کے ساتھ ساتھ

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment