Tuesday 3 July 2012

اس کی پلکوں پہ کوئی خواب سجا رہنے دے

اس کی پلکوں پہ کوئی خواب سجا رہنے دے
حبس بڑھ جائے گا اِس در کو کھلا رہنے دے
میرے مالک تو بھلے چِھین لے گویائی مِری
میرے ہونٹوں پہ فقط ایک دعا رہنے دے
میرے خوابوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے
شب کی دہلیز پہ یادوں کا دِیا رہنے دے
بے رُخی ہی تِرے مجرم کے لیے کافی ہے
اُس سے منہ موڑ لے کوئی اور سزا رہنے دے
چاند بن کر تِرے کمرے میں اُتر آؤں گا
آج کی رات تو کھڑکی کو کھلا رہنے دے

عاطف سعید

No comments:

Post a Comment