اس کی پلکوں پہ کوئی خواب سجا رہنے دے
حبس بڑھ جائے گا اِس در کو کھلا رہنے دے
میرے مالک تو بھلے چِھین لے گویائی مِری
میرے ہونٹوں پہ فقط ایک دعا رہنے دے
میرے خوابوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لیے
بے رُخی ہی تِرے مجرم کے لیے کافی ہے
اُس سے منہ موڑ لے کوئی اور سزا رہنے دے
چاند بن کر تِرے کمرے میں اُتر آؤں گا
آج کی رات تو کھڑکی کو کھلا رہنے دے
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment