Saturday 8 December 2012

گل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے

گُل بھی گُلشن میں کہاں، غُنچہ دہن، تم جیسے
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے
یہ میرا حُسنِ نظر ہے تو دِکھا دے کوئی
قامت و گیسُو و رُخسار و دہن، تم جیسے
اب تو قاصد سے بھی ہر بات جھجک کر کہنا
لے گئے ہو میرا بے ساختہ پن تم جیسے
اب تو نایاب ہوئے دشمنِ دیرینہ تک
اب کہاں اے میرے یارانِ کُہن، تم جیسے
کبھی ہم پر بھی ہو احسان کہ بنا دیتے ہو
اپنی آمد سے بیاباں کو چمن تم جیسے
کبھی ان لالہ قباؤں کو بھی دیکھا ہے فرازؔ
پہنے پِھرتے ہیں جو خوابوں کے کفن تم جیسے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment