Saturday 8 December 2012

سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے

سو صلیبیں تھیں، ہر اِک حرفِ جنُوں سے پہلے
کیا کہوں اب میں "کہُوں یا نہ کہُوں" سے پہلے
اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح
جس کو نسبت تھی مرے حالِ زبُوں سے پہلے
کوئی اِسم ایسا، کہ اُس شخص کا جادو اُترے
کوئی اعجاز، مگر اُس کے فسُوں سے پہلے
بے طلب اُسکی عنایت ہے تو حیران ہوں میں
ہاتھ مانُوس نہ تھے شاخِ نگُوں سے پہلے
حرفِ دل آیا کہ آیا میرے ہونٹوں پہ اب
بڑھ گئی بات بہت سوزِ درُوں سے پہلے
تشنگی نے نگہِ یار کی، شرمندہ کیا
دل کی اوقات نہ تھی قطرۂ خُوں سے پہلے
خوش ہو آشوب محبت سے، کہ زندہ ہو فرازؔ
ورنہ کچھ بھی تو نہیں دل کے سکُوں سے پہلے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment