Thursday 13 December 2012

کس سے بیان کیجیے حال دل تباہ کا

کس سے بیان کیجیے، حال دلِ تباہ کا
سمجھے وہی اسے جو ہو، زخمی تِری نگاہ کا
مجھ کو تِری طلب ہے یار، تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میں‌ یاں نہیں، طَور کوئی نباہ کا
دِین، دل و قرار، صبر، عشق میں‌تیرے کھو چکے
جیتے جو اب کے ہم بچے نام نہ لیں‌ گے چاہ کا
زمزمے پر رکھے ہے تُو، مرغِ چمن کے گوشِ دل
نالہ کبھی سنا تو کر، اپنے بھی داد خواہ کا
حُسن ترے کا اے صنم، ہے کہ و مہہ پہ نقش آج
تیری ادا پہ شیفتہ، دل ہے گدا و شاہ کا
وصل بھی ہو تو دل مِرا، غم کو نہ چھوڑے ہجر کے
یہ تو ہمیشہ ہے رفیق، وصل ہے گاہ گاہ کا
سوداؔ سُنا ہے میں نے یہ، اُس پہ ہوا تُو مبتلا
رشک سے جس کی چہرے کے داغِ جگر ہے ماہ کا

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment