Sunday 31 March 2013

ایک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے

ایک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے
گھر کے آنسو تھے مگر بر سرِ بازار گرے
ہم ہی آنہوں سے نہیں ہار کے ناچار گرے
آندھیاں جب بھی چلی ہیں کئی اشجار گرے
پھر وہی خواب، وہی طوفاں وہی دو آوازیں
جیسے در پہلے گرے بعد میں دیوار گرے
ایسی آواز سے دل ٹوٹ کے سینے میں گرا
جیسے منجدھار میں بھونچال سے کہسار گرے
جیسے نوبت ہی معالج کی نہیں آئے کوئی
جیسے رستے میں ہی دم توڑ کے بیمار گرے
صرف میں نے ہی تو گجرے نہیں بھیجے اس کو
میرے آنگن میں بھی پھولوں کے کئی ہار گرے
ایک تم ہی نہیں پِھسلے ہو یہاں آ کے عدیمؔ
بارشِ زر میں کئی صاحبِ کردار گرے
دھوپ بارش میں اچانک جو نکل آئی عدیمؔ
زیرِ اشجار کئی سایۂ اشجار گرے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment