Thursday 28 March 2013

ملال دولت بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں

ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنجِ زر نکالتے ہیں
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سِکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئینے اجالتے ہیں
سجا کے آئینۂ حرف پیشِ آئینہ
ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں
عذابِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرعِ تر
سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment