Friday 29 March 2013

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں ملا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں مِلا
ہم کو ثبوتِ تشنہ دہانی نہیں ملا
اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مِل نہیں سکے
جیسے ہمارا عہدِ جوانی نہیں ملا
اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی
جاناں تو سینکڑوں تھے، وہ جانی نہیں ملا
دریا کھنگال ڈالے ہیں، اُس کی تلاش میں
پلکوں سے ریگِ دَشت بھی چھانی نہیں ملا
صبر آ گیا تو سُوکھی ندی بھی اُبل پڑی
جب پیاس تھی تو بُوند بھی پانی نہیں ملا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment