Thursday 28 March 2013

دور کہیں کھلا ہوا خواب تھا مرغزار میں

دور کہیں کِھلا ہوا، خواب تھا مرغزار میں
دیر تلک چلے تھے ہم نیند کے شاخسار میں
موجِ خزاں سے قبل ہی ایک ہَوائے ہجر نے
لُوٹ لیا چمن مِرا، وہ بھی بھری بہار میں
تجھ کو وہ عہدِ مختصر، یاد نہیں رہا، مگر
کوئی رہا ہے عمر بھر محشرِ انتظار میں
اب نہ خدا کرے کہ ہم، پھر تِری آرزو کریں
اب ہو خدا کرے یہ دل اپنے ہی اختیار میں
آج یہ کس نے گرم ہاتھ شانۂ غم پہ رکھ دیا
کون دلاسہ دے گیا، لمحۂ سوگوار میں
کس کے لبوں پہ میرا نام گُل کی طرح چٹک گیا
کس نے اضافہ کر دیا موسمِ خوشگوار میں
ایک نئی ہَوا کے بعد منظرِ دشت اور ہے
نقشِ قدم کا ذکر کیا درد کے اس غبار میں
جشنِ گل و نمائشِ باغ سے دُور ہم کِھلے
ایک نگاہ کے لیے کون لگے قطار میں
راہ میں بیٹھتے گئے تھک کے مریضِ بے دِلی
منزلِ شوق کے اسیر اب بھی اُسی حصار میں

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment