Friday 29 March 2013

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے 
اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت 
ہم ناصحِ مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے
اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں 
ارواح کے حالات پہ نوحہ نہیں کہتے
ہم نے کبھی دنیا کو حماقت نہیں سمجھا 
ہم لوگ کبھی غم کو تماشا نہیں کہتے 
انسان کے چہرے کے پرستار ہوئے ہیں 
اور قاف کی پریوں کا فسانہ نہیں کہتے
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز 
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے 

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment