Friday 29 March 2013

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اُترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
اس شہر میں غارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment