Friday 29 March 2013

زندگی کے ساز کا ٹوٹا ہوا ہر تار ہے

زندگی کے ساز کا ٹوٹا ہوا ہر تار ہے
کوئی نغمہ اس میں اُبھرے، سوچنا بیکار ہے
مصلحت کی کوئی بھی زنجیر پیروں میں نہیں
ایسا کیوں لگتا ہے جیسے دل پسِ دِیوار ہے
جب حکومت کہہ رہی ہے امن ہے چاروں طرف
خُون میں ڈُوبا ہوا کیوں آج کا اخبار ہے
سانس کی گردِش ہے سِینے میں مقیّد اس طرح
جس طرح پنجرے میں پنچھی قید ہے، لاچار ہے
یُوں خُوشی کے نام سے دل کانپ اُٹھتا ہے بتولؔ
زندگی کا رقص جیسے موت کی جھنکار ہے

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment