Friday 29 March 2013

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ 
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہِستہ آہستہ 
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ 
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ 
دریچوں کو تو دیکھو چِلمنوں کے راز کو سمجھو 
اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ 
زمانے بھر کی کیفیت سمٹ آئے گی ساغر میں 
پِیو اِن انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ 
یونہی اِک روز اپنے دل کا قصّہ بھی سنا دینا 
خطاب آہِستہ آہِستہ نظر آہستہ آہستہ

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment