Saturday 21 September 2013

ہم ماٹی میں سو جائیں گے

ہم ماٹی میں سو جائیں گے 

ہم آج بہت بے نام سہی
گمنام سہی
تھوڑے تھوڑے بدنام سہی
یہ شعر بہت  بے قیمت ہیں
جو لکھتے ہیں
یہ خواب ہمارے جھوٹے ہیں

محبت کربلا سی ہے

محبت کربلا سی ہے 

محبت چار حرفوں کا صحیفہ ہے
محبت "میم" سے ہے مرگ
"ح" سے حادثہ بھی ہے
یہ "ب" سے بے کلی ہے اور "ت" سے تاج کانٹوں کا
اگر یہ مرگ ہے تو مرگ سے کس کو مفر سوچو؟

بنے کوئی تمہارا کس لیے جی

بنے کوئی تمہارا کس لیے جی؟
یہ چنچل سا اشارہ کس لیے جی؟
اگر ہے تیرگی کا راج ہر سُو
تو پھر روشن ستارہ کس لیے جی؟
وہ کہتا ہے کہ دل پھر سے لگاؤ
خسارے پر خسارہ کس لیے جی؟

خاک دل کا دیار کر ڈالا

خاک دل کا دیار کر ڈالا
پھر سے سینہ فگار کر ڈالا
اور کتنے دِئیے جلاؤ گے؟
گھر کو تم نے مزار کرڈالا
پھر ہواؤں سے دوستی کر لی
پھر سے دل داغدار کر ڈالا

وہ جگنو ہے ستارا کیوں کریں ہم

وہ جگنو ہے ستارا کیوں کریں ہم
نہیں ہے وہ ہمارا، کیوں کریں ہم
کسی کے ساتھ گھل مِل سے گئے ہو
بھلا اِس کو گوارا کیوں کریں ہم
جن آنکھوں میں سمندر ڈُوبتا ہے
ان آنکھوں سے کنارہ کیوں کریں ہم 

Friday 20 September 2013

سخت مشکل میں ہوں اک خواہش سادہ کر کے

سخت مشکل میں ہوں اِک خواہشِ سادہ کر کے
توڑ بیٹھا ہوں کئی بار ارادہ کر کے
میں جسے اپنی محبت کی اکائی سمجھا
اس نے تو چھوڑ دیا ہے مجھے آدھا کر کے
اسکی باتوں کے بھروسے پہ کہاں تک جائیں
وہ تو پورا نہیں کرتا کوئی وعدہ کر کے

سودا سفر کا تھا کبھی اب سر میں کچھ نہ تھا

سودا سفر کا تھا کبھی اب سر میں کچھ نہ تھا
اک بُوئے رفتگاں کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا
پھیلی ہوئی ہتھیلی پہ رکھی تھی عاجزی
اور اختیار دستِ تونگر میں کچھ نہ تھا
پھر سارا کام پاؤں کی لغزش نے کر دیا
ٹھوکر لگی تو کانچ کے پیکر میں کچھ نہ تھا

کچھ اس طرح سے تباہی کا میں شکار ہوا

کچھ اس طرح سے تباہی کا میں شکار ہوا
کہ مجھ پہ حملہ محبت کا بار بار ہوا
مِرے علاوہ کسی جیب میں نہیں تھا کچھ
میں بھیک مانگنے نکلا تو شرمسار ہوا
بساطِ صبر سے باہر مکالمہ کر لیں
معائدے میں اگر کوئی بے قرار ہوا؟

Sunday 15 September 2013

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہی چھوٹ گیا

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری امیدیں ٹوٹ گئیں، دل بیٹھ گیا، جی چھوٹ گیا
فصلِ گل آئی یا اجل آئی، کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
لیجیے کیا دامن کی خبر اور دستِ جنوں کو کیا کہیے
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گزری چھوٹ گیا

دیکھ آئینہ میں عکس رخ جانانہ جدا

دیکھ آئینہ میں عکسِ رُخِ جانانہ جدا
میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا
سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال
گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا
آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر
شمع روتی ہے جدا، جلتا ہے پروانہ جدا

سر پہ کلاہ کج دھرے زلف دراز خم بہ خم

سر پہ کلاہِ کج دَھرے، زُلفِ دراز خم بہ خم
آہوئے چشم ہے غضب، ترکِ نگاہ ہے ستم
چاند سے منہ پہ خال دو، ایک ذقن پہ رخ پہ ایک
اس سے خرابئ عرب، اس سے تباہئ عجم
وہ خمِ گیسوئے دراز، دامِ خیالِ عاشقاں
ہو گئے بے طرح شکار، اب نہ رہے کہیں کے ہم

کیوں اے فلک جو ہم سے جوانی جدا ہوئی

کیوں اے فلک! جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی
اِک خودبخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی
گُستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
کچھ جھک کر گوش گُل میں کہا اور ہوا ہوئی
مایوس دل نے ایک نہ مانی امید کی
کہہ سن کے یہ غریب بھی حق سے ادا ہوئی

ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا

مِلنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دُشوار کچھ نہ تھا
سُن کر کے واقعے کو مِرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ، وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں
جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں
شورِ جنوں ہوا ہے گُلو گیر کیا کروں
ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں
نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مِرا
آتی ہے شرم میں اسے تقریر کیا کروں

ابھی تو میں جوان ہوں

ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوشگوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُربہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا

ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں

ان کو جگر کی جستجو، ان کی نظر کو کیا کروں
مجھ کو نظر کی آرزو، اپنے جگر کو کیا کروں
رات ہی رات میں تمام، طے ہوئے عمر کے مقام
ہو گئی زندگی کی شام، اب میں سحر کو کیا کروں
وحشتِ دل فزُوں تو ہے، حال میرا زبُوں تو ہے
عشق نہیں جنُوں تو ہے، اس کے اثر کو کیا کروں

Friday 13 September 2013

ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے

تِرے اثر سے نِکلنے کے سو وسِیلے کِیے
مگر وہ نَین کہ تُو نے تھے جو نشِیلے کِیے
تِرے خیال نے دِل سے اُٹھائے وہ بادل
پھر اُسکے بعد مناظر جو ہم نے گِیلے کِیے
ابھی بہار کا نشہ لہُو میں رقصاں تھا
کفِ خزاں نے ہر اِک شے کے ہات پِیلے کِیے

مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں

مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بھلا کیا اعتبار تو نے  ہزار منہ ہیں، ہزار باتیں
رقیب کا ذکر وصل کی شب پھر اُس پہ تاکید ہے کہ سنئے
تمہیں تو اِک داستاں ٹھہری، ہمیں یہ ہیں ناگوار باتیں
اُنہیں نہ کیوں عذر دردِ سر ہو جب اس طرح کا پیامبر ہو
غضب کیا، عمر بھر کی اُس نے تمام کیں ایک بار باتیں

اب آنکھ سے اشکوں کی ترسیل نہیں ہوتی

اب آنکھ سے اشکوں کی ترسیل نہیں ہوتی
حالت بھی مِرے دل کی تبدیل نہیں ہوتی
ہم شرم کے ماروں کو اب شرم نہیں آتی
ذلت میں پڑے ہیں اور تذلیل نہیں ہوتی
مجھ ٹوٹے ہوئے کو پھر یہاں کون بنائے گا
تجھ سے بھی اگر میری تکمیل نہیں ہوتی

زندگی کوئے ملامت میں تو اب آئی ہے

زندگی کوئے ملامت میں تو اب آئی ہے
اور کچھ چاہنے والوں کے سبب آئی ہے
ہم فقیروں میں کسی طور شکایت تیری
لب پہ آئی بھی تو تا حدِ ادب آئی ہے
پھول سے کھلتے چلے جاتے ہیں جیسے دل میں
اس گلستاں میں عجب موجِ طرب آئی ہے

Monday 9 September 2013

خود اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے

خود اپنی حد سے نکل کر حدُود ڈھونڈتی ہے 
کہ خاک، بارِ دگر بھی قیُود ڈھونڈتی ہے 
ہوائے تُند بڑھاتی ہے خُود چراغ کی لَو 
کہ روشنی میں‌یہ اپنا وجُود ڈھونڈتی ہے 
ابھی ستارہ سا چمکا تھا میری پلکوں پر 
کوئی تو شے ہے جو بُود و نبُود ڈھونڈتی ہے

امن کا گیت گانے والوں کے نام

امن کا گیت گانے والوں کے نام 

چھپائے رکھتے ہیں خنجر جو آستینوں میں
چھپی ہیں نفرتیں صدیوں سے جن کے سینوں میں 
عجیب بات ہے پیغامِ امن لائے ہیں
وہی جو میرے عزیزوں کو مار آئے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں کہ آؤ خُوشی منائیں ہم
بسنت رُت ہے پتنگیں بھی اب اُڑائیں ہم

Sunday 8 September 2013

وہ دمکتی ہوئی لو کہانی ہوئی وہ چمکدار شعلہ فسانہ ہوا

وہ دَمکتی ہوئی لَو کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
 وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا
ایک خُوشبو سی پھیلی ہے چاروں طرف اُسکے امکان کی اُسکے اعلان کی
 رابطہ پھر بھی اُس حُسنِ بے نام سے، جس کا جتنا ہوا، غائبانہ ہُوا
 باغ میں پھول اُس روز جو بھی کھلا اُسکے بالوں میں سجنے کو بے چین تھا
 جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُس کی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا

اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا

اب جی حدودِ سُود و زیاں سے گزر گیا 
 اچھا وہی رہا، جو جوانی میں مر گیا 
پلکوں پہ آ کے رُک سی گئی تھی ہر ایک موج 
 کل رو لیے، تو آنکھ سے دریا اُتر گیا 
 تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی 
 میں خود کو ڈھونڈنے کے لئے دربدر گیا 

Friday 6 September 2013

اک سزا اور اسِیروں کو سنا دی جائے

اِک سزا اور اسِیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسِیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے، مگر
پہلے جو آگ لگی ہے، وہ بجھا دی جائے
اسکی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی، وقت کی آواز بنا دی جائے

زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے

زندگی نے جھیلے ہیں، سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے
دل بجھے تو تاریکی دور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے
دشتِ بےنیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے

میں سمجھا مری گھٹن مِٹانے آیا تھا

میں سمجھا، مِری گھٹن مِٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو، دِیا 🪔بجھانے آیا تھا
موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا، لیکن
کیا آیا، بس خاک اڑانے آیا تھا
چشمِ زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو

سفر نصیب ہیں، ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو، کفِ کوزہ گر میں رہنے دو
ہمیں خبر ہے، کِسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو
تمہاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو، سَر میں رہنے دو

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے

درد ہے کہ نغمہ ہے، فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے
آپ کتنے سادہ ہیں، چاہتے ہیں بس ایسا
ظلم کے اندھیرے کو، رات کہہ دیا جائے
آج سب ہیں بے قیمت، گریہ بھی، تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے، دل میں رو لیا جائے

بہ پاس خاطر سرکار کیا نہیں کرتے

بہ پاسِ خاطرِ سرکار کیا نہیں کرتے
ہیں دلفگار، مگر دل برا نہیں کرتے
ہماری ذات میں محشر بپا ہے مدت سے
مگر یہ ہم، کہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے
غبارِ راہ سے آگے نکل گئے ہوتے
جو رک کے پاؤں سے کانٹے جدا نہیں کرتے

خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا

خون سے جب جلا دیا ایک دِیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دِیا بجھا ہوا
ایک ہی داستانِ شب ایک ہی سلسلہ تو ہے
ایک دِیا 🪔 جلا ہوا، ایک دِیا بجھا ہوا
محفلِ رنگ و نور کی پھر مجھے یاد آ گئی
پھر مجھے یاد آ گیا، ایک دِیا بجھا ہوا

زمانہ میری شکست دل کا سوال ہی کیوں اٹھا رہا ہے

زمانہ میری شکستِ دل کا سوال ہی کیوں اٹھا رہا ہے
ابھی مِرے زخم ہنس رہے ہیں، ابھی مرا درد گا رہا ہے
میں کب سے اس تندئ ہوا کے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا
مگر یہ اِک دستِ محرمانہ جو آج مجھ کو بجھا رہا ہے
عجیب بیگانگی کی رُت ہے، ہر ایک پہچان کھو گئی ہے
اب ایسے عالم میں دشتِ قاتل ہے ایک جو آشنا رہا ہے

بے دلی سے ہنسنے کو خوشدلی نہ سمجھا جائے

بے دلی سے ہنسنے کو خوشدلی نہ سمجھا جائے
غم سے جلتے چہرے کو روشنی نہ سمجھا جائے
گاہ، گاہ، وحشت میں، گھر کی سمت جاتا ہوں
اس کو دشتِ حیرت سے واپسی نہ سمجھا جائے
لاکھ خوش گماں دنیا، باہمی تعلق کو
دوستی کہے لیکن دوستی نہ سمجھا جائے

رسوائی کا میلہ تھا سو میں نے نہیں دیکھا

رسوائی کا میلہ تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اس خوابِ تمنا کی تعبیر نہ تھی کوئی
بس خوابِ تمنا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
نیرنگئ دنیا کا منظر تھا حسِیں، لیکن
اس سر میں بھی سودا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا

کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم

کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اِک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم

غم سے بہل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
سایۂ وصل کب سے ہے آپ کا منتظر، مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنے خلاف فیصلہ، خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

Tuesday 3 September 2013

یار دل جوئی کی زحمت نہ اٹھائیں جائیں

یار دلجوئی کی زحمت نہ اٹھائیں، جائیں
 رو چکا ہوں نہ مجھے اور رُلائیں، جائیں
 مجھ سے کیا ملنا کہ میں خود سے جُدا بیٹھا ہوں
 آپ آ جائیں مجھے مجھ سے ملائیں، جائیں
 حجرۂ چشم، تو اوروں کے لیے بند کیا
 آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں، جائیں

دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گھمایا ہوا شخص
 ایک دن حشر اْٹھاتا ہے گِرایا ہوا شخص
 میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
 وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
 یاد آتا ہے، تو آتا ہی چلا جاتا ہے
 کارِ بے کارِ زمانہ میں بھلایا ہوا شخص

تم اپنے سامنے دیوار ہونا

تم اپنے سامنے دیوار ہونا
 اگر چاہو کبھی مسمار ہونا
 ہزاروں ٹھوکروں کی داستاں ہے
 کہیں اک راستہ ہموار ہونا
 بڑی مشکل سے میں مرہم ہوا ہوں
 بہت آسان تھا تلوار ہونا

مرے روگ کا نہ ملال کر مرے چارہ گر

مِرے روگ کا نہ ملال کر، مِرے چارہ گر
میں بڑا ہوا اِسے پال کر، مرے چارہ گر
سبھی درد چُن مِرے جسم سے، کسی اِسم سے
مِرا انگ انگ بحال کر، مرے چارہ گر
مجھے سی دے سوزنِ درد، رشتۂ زرد سے
مجھے ضبطِ غم سے بحال کر، مرے چارہ گر

ایک ہم ہیں کہ جاں سے کہتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ جاں سے کہتے ہیں
سب محبت زباں سے کہتے ہیں
دل نے ہم سے کہا، اِدھر دیکھو
درد والے یہاں سے کہتے ہیں
کہنے سننے سے کچھ نہیں ہوتا
روز ہم آسماں سے کہتے ہیں

ہزار بار دبانے کو شہریار اٹھا

ہزار بار دبانے کو شہر یار اُٹھا
 مگر یہ شورِغریباں کہ بار بار اُٹھا
 یہ ٹُوٹ کر تو زیادہ وبالِ دوش ہوئی
 میں اُٹھ پڑا تو نہ مجھ سے اَنا کا بار اُٹھا
یقین رکھنے لگا ہے جو عالمِ دل پر
 تو پھر علائقِ دُنیا سے اعتبار اُٹھا

یوں تو یہ شہر تھا زنجیر بپا پہلے سے

یوں تو یہ شہر تھا زنجیر بپا پہلے سے
 اب کے لیکن یہ اسیری ہے جُدا پہلے سے
 مدتوں بعد تجھے دیکھنے نکلی آنکھیں
 تُو کہیں میرے خیالات میں تھا پہلے سے
 تُم سے آگے ہوں محبت میں تو حیران نہ ہو
 دیکھ رکھی تھی رہِ دشتِ وفا پہلے سے

ملتا نہیں ہے گوہر نام و نشان خاک

ملتا نہیں ہے گوہرِ نام و نشانِ خاک
 مقدُور بھر تو چھان چکا ہوں جہانِ خاک
 پھر مجھ کو دَشت دَشت پھراتی رہی ہوا
 ایسا ہوا میں شاملِ وابستگانِ خاک
 سب خاک ہے، تو خاک کا ہونا فضول تھا
 پھر خاکداں ميں کس لئے کھولی دُکانِ خاک

کل تلک ہوتا رہا آج نہیں ہونے کا

کل تلک ہوتا رہا، آج نہیں ہونے کا
 اب زمانے پہ تِرا راج نہیں ہونے کا
 استقامت سے نکالوں گا میں قامت اپنا
 میں کبھی تاج کا محتاج نہیں ہونے کا
 رات دن ایک کئے جاتے ہیں کارِ دل میں
 صرف باتوں سے تو یہ کاج نہیں ہونے کا

گر جائیں زمیں پر تو سنبھالے نہیں جاتے

 گر جائیں زمیں پر تو سنبھالے نہیں جاتے
 بازار میں دُکھ درد اچھالے نہیں جاتے
 جاتے نہیں صحراؤں کو ہم عشق گرِفتہ
 جب تک دلِ مجنوں کی دُعا لے نہیں جاتے
اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے

چند لفظوں کا دردمند ہوں میں

چند لفظوں کا دردمند ہوں میں
 بولنے میں ذرا بلند ہوں میں
 دے تو دیتا میں اپنا آپ تجھے
 یار! خود کو بھی ناپسند ہوں میں
یہ اسیری بڑی اسیری ہے
 اپنی سوچوں کے بیچ بند ہوں میں

وہ تن کا تماشائی رہا من نہیں دیکھا

وہ تن کا تماشائی رہا، مَن نہیں دیکھا
 دہلیز تک آیا بھی تو آنگن نہیں دیکھا
 چہرے پہ کھلی دھوپ میں اس درجہ مگن تھا
 آنکھوں سے برستا ہوا ساون نہیں دیکھا
 اِس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے اُدھر سے
 دُکھ دیتے ہوئے یار نے دامن نہیں دیکھا

کوئی بات تو کر دل دکھتا ہے

دل دُکھتا ہے

اے چشمِ درد آشنا
 اِک بوند برس
 اِک اشک چھلک
 خاموش نظر! کوئی بات تو کر
 دل دُکھتا ہے
تو میرے دل پر ہاتھ تو رکھ

فاصلے نہیں مٹتے

فاصلے نہیں مٹتے

خواب اور خواہش میں
 نیند بھر کی دوری ہے
 وصل اور خُدائی میں
 آنکھ بھر کا وقفہ ہے
 ہجر کے اندھیروں کی

Monday 2 September 2013

چھوڑ دو گے تم ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا

 چھوڑ دو گے تم ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا
 یوں تمہیں مل جائے گا، اپنوں کو تڑپانے سے کیا
 لاکھ سمجھاؤ، مگر ہوتا ہے سمجھانے سے کیا
 ہوش کی باتیں کرو، الجھو گے دیوانے سے کیا 
 آپ کی باتیں سنیں واعظ! مگر مانیں نہیں
چوٹ کھاتا، آپ جیسے جانے پہچانے سے کیا