اب جی حدودِ سُود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا، جو جوانی میں مر گیا
پلکوں پہ آ کے رُک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے، تو آنکھ سے دریا اُتر گیا
تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی
شامِ وطن! کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جِن کے لہُو سے صبح کا چہرہ نِکھر گیا
آ کر بہار کو تو جو کرنا تھا، کر گئی
اِلزامِ احتیاِط، گریباں کے سَر گیا
زنجیرِ ماتمی ہے، تم اے عاقلانِ شہر
آب کس کو پوچھتے ہو، دِوانہ تو مر گیا
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment