Friday 6 September 2013

زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے

زندگی نے جھیلے ہیں، سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے
دل بجھے تو تاریکی دور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے
دشتِ بےنیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے
میں نے تو ہواؤں سے داستانِ غم کہہ دی
دیکھتے رہے حیراں سب حجاب دنیا کے
دیکھیں چشمِ حیراں کیا انتخاب کرتی ہے
میں کتابِ تنہائی، تم نصاب دنیا کے
زندگی سے گزرا ہوں، کتنا بے نیازانہ
ساتھ ساتھ چلتے تھے انقلاب دنیا کے
ہم نے دستِ دنیا پر پھر بھی کی نہیں بیعت
جانتے تھے ہم، تیور ہیں خراب دنیا کے

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment