Friday, 6 September 2013

کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم

کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اِک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض، بتانے کے نہیں ہم
لازم نہیں افسانہ حسیں موڑ پہ چھوڑیں
بنتی ہو، مگر بات بنانے کے نہیں ہم
بے نور اجالے ہوں تو پھر دل ہی جلیں گے
یہ آخری شمعیں تو بجھانے کے نہیں ہم
یہ گھر تو نہیں ہے کہ جو گھبرائیں نکل جائیں
صحرا ہے سو اب یاں سے تو جانے کے نہیں ہم
یہ حسرتِ نم، اشکِ ندامت ہی نہ کہلائے
روئیں گے مگر اشک بہانے کے نہیں ہم
معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں، یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment