Tuesday 3 September 2013

گر جائیں زمیں پر تو سنبھالے نہیں جاتے

 گر جائیں زمیں پر تو سنبھالے نہیں جاتے
 بازار میں دُکھ درد اچھالے نہیں جاتے
 جاتے نہیں صحراؤں کو ہم عشق گرِفتہ
 جب تک دلِ مجنوں کی دُعا لے نہیں جاتے
اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتےآنکھوں سے نکلتے ہو مگر دھیان میں رکھنا
تم ایسے کبھی دل سے نکالے نہیں جاتے
ایسا بھی نہیں چھوڑ کے جاتے نہیں خوباں
جاتے ہیں، مگر لوٹنے والے نہیں جاتے
 جنگل کے یہ پودے ہیں انہیں چھوڑ دے نیر
غم آپ جواں ہوتے ہیں، پالے نہیں جاتے

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment