Sunday, 15 September 2013

ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا

مِلنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دُشوار کچھ نہ تھا
سُن کر کے واقعے کو مِرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ، وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا
ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے
دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ دیوار کچھ نہ تھا
افسوس اس میں آتے ہی دل اپنا لگ گیا
باغِ زمانہ گرچہ ہوادار کچھ نہ تھا
بیکل رکھے تھی لاگ طبیعت کی رات دن
ہر چند اس سے مجھ کو سروکار کچھ نہ تھا
کٹتا نہ کیونکہ دیکھ کے ابرو کی چیں کو میں
یہ خطِ تیغ تھا، خطِ زنّار کچھ نہ تھا
ق
اِک بوسہ چاہتا تھا تصوّر کے لب سے جان
میں جنسِ حُسن کا تو خریدار کچھ نہ تھا
پر حیف تم سے اتنی بھی ہمت نہ ہو سکی
اس میں زبانِ خوبئ رُخسار کچھ نہ تھا
ظالم نے کیا سمجھ کے کیا مصحفیؔ کو قتل
یارو! وہ اس قدر تو گنہگار کچھ نہ تھا

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment