خاک دل کا دیار کر ڈالا
پھر سے سینہ فگار کر ڈالا
اور کتنے دِئیے جلاؤ گے؟
گھر کو تم نے مزار کرڈالا
پھر ہواؤں سے دوستی کر لی
یہ محبت تھی خاص شے جس کا
تم نے تو کاروبار کر ڈالا
پھر سے دل ہاتھ سے گیا دیکھو
پھر محبت کا وار کر ڈالا
وہ جو بستی بسا کے بھول گیا
ہم نے تو اُس سے پیار کر ڈالا
دل کو پہلو میں لے کے پھرتا ہے
کہہ رہا تھا، نثار کر ڈالا
تم نے فُرقت کے سارے لمحوں کو
زندگی میں شمار کر ڈالا
جو ہواؤں پہ پیر رکھتے تھے
خاک نے، خاکسار کر ڈالا
ہم نے خوشبو کی جستجو میں بتولؔ
کیوں مقدّر کو دار کر ڈالا
اب نہ آیا تو پھر بلا سے بتولؔ
ہم نے تو انتظار کر ڈالا
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment