Saturday 21 September 2013

خاک دل کا دیار کر ڈالا

خاک دل کا دیار کر ڈالا
پھر سے سینہ فگار کر ڈالا
اور کتنے دِئیے جلاؤ گے؟
گھر کو تم نے مزار کرڈالا
پھر ہواؤں سے دوستی کر لی
پھر سے دل داغدار کر ڈالا
یہ محبت تھی خاص شے جس کا
تم نے تو  کاروبار کر ڈالا
پھر سے دل ہاتھ سے گیا دیکھو
پھر محبت کا وار کر ڈالا
وہ جو بستی بسا کے بھول گیا
ہم نے تو اُس سے پیار کر ڈالا
دل کو پہلو میں لے کے پھرتا ہے
کہہ رہا تھا، نثار کر ڈالا
تم نے فُرقت کے سارے لمحوں کو
زندگی میں شمار کر ڈالا
جو ہواؤں پہ پیر رکھتے تھے
خاک نے، خاکسار کر ڈالا
ہم نے خوشبو کی جستجو میں بتولؔ
کیوں مقدّر کو دار کر ڈالا
اب نہ آیا تو پھر بلا سے بتولؔ
ہم نے تو انتظار کر ڈالا

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment