Friday 6 September 2013

اک سزا اور اسِیروں کو سنا دی جائے

اِک سزا اور اسِیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسِیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے، مگر
پہلے جو آگ لگی ہے، وہ بجھا دی جائے
اسکی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی، وقت کی آواز بنا دی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح، تو پھر
ایک شب اور، مِری شب سے مِلا دی جائے
شرط اب یہ تو نہیں دل سے بھی دل مِلتے ہوں
صرف آواز میں، آواز مِلا دی جائے
بے ضرورت ہو ملاقات، ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رَسم اٹھا دی جائے
صرف جلنا ہی نہیں، ہم کو بھڑکنا بھی ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے، ہَوا دی جائے
اور اِک تازہ ستم، اس نے کیا ہے ایجاد
اس کو اِس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment