خون سے جب جلا دیا ایک دِیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دِیا بجھا ہوا
ایک ہی داستانِ شب ایک ہی سلسلہ تو ہے
ایک دِیا 🪔 جلا ہوا، ایک دِیا بجھا ہوا
محفلِ رنگ و نور کی پھر مجھے یاد آ گئی
پھر مجھے یاد آ گیا، ایک دِیا بجھا ہوا
مجھ کو نشاط سے فزوں رسمِ وفا عزیز ہے
میرا رفیقِ شب رہا، ایک دِیا بجھا ہوا
درد کی کائنات میں مجھ سے بھی روشنی رہی
ویسے مِری بساط کیا، ایک دِیا بجھا ہوا
سب مری روشنیِ جاں حرفِ سخن میں ڈھل گئی
اور میں جیسے رہ گیا، ایک دِیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دِیا بجھا ہوا
ایک ہی داستانِ شب ایک ہی سلسلہ تو ہے
ایک دِیا 🪔 جلا ہوا، ایک دِیا بجھا ہوا
محفلِ رنگ و نور کی پھر مجھے یاد آ گئی
پھر مجھے یاد آ گیا، ایک دِیا بجھا ہوا
مجھ کو نشاط سے فزوں رسمِ وفا عزیز ہے
میرا رفیقِ شب رہا، ایک دِیا بجھا ہوا
درد کی کائنات میں مجھ سے بھی روشنی رہی
ویسے مِری بساط کیا، ایک دِیا بجھا ہوا
سب مری روشنیِ جاں حرفِ سخن میں ڈھل گئی
اور میں جیسے رہ گیا، ایک دِیا بجھا ہوا
پیرزادہ قاسم صدیقی
No comments:
Post a Comment