رسوائی کا میلہ تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اس خوابِ تمنا کی تعبیر نہ تھی کوئی
بس خوابِ تمنا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
نیرنگئ دنیا کا منظر تھا حسِیں، لیکن
اس سر میں بھی سودا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
پیاسے تو رہے، لیکن توقیر نہیں کھوئی
دریا جو پرایا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اِمروز کا آئینہ بے عکس نہ تھا، لیکن
اندیشۂ فردا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
مجھ آئینہ گر کو بھی اِک پیکرِ بے چہرہ
آئینہ دِکھاتا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اس خوابِ تمنا کی تعبیر نہ تھی کوئی
بس خوابِ تمنا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
نیرنگئ دنیا کا منظر تھا حسِیں، لیکن
اس سر میں بھی سودا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
پیاسے تو رہے، لیکن توقیر نہیں کھوئی
دریا جو پرایا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
اِمروز کا آئینہ بے عکس نہ تھا، لیکن
اندیشۂ فردا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
مجھ آئینہ گر کو بھی اِک پیکرِ بے چہرہ
آئینہ دِکھاتا تھا، سو میں نے نہیں دیکھا
پیرزادہ قاسم صدیقی
No comments:
Post a Comment