Friday 20 September 2013

سخت مشکل میں ہوں اک خواہش سادہ کر کے

سخت مشکل میں ہوں اِک خواہشِ سادہ کر کے
توڑ بیٹھا ہوں کئی بار ارادہ کر کے
میں جسے اپنی محبت کی اکائی سمجھا
اس نے تو چھوڑ دیا ہے مجھے آدھا کر کے
اسکی باتوں کے بھروسے پہ کہاں تک جائیں
وہ تو پورا نہیں کرتا کوئی وعدہ کر کے
وہ جو اک شخص مری مُٹھی میں آ جاتا تھا
کھو دیا میں نے اسے دل کو کشادہ کر کے
میں بھی کیا نقش ہوں اَزبر نہیں ہونے پاتا
اور وہ بھول بھی جاتا ہے اعادہ کر کے
کچھ تکلف بھی ضروری ہے رچاؤ کے لئے
زندگی اور بھی مشکل ہوئی سادہ کر کے
میں تو شہپر تھا، ہواؤں میں اُڑا کرتا تھا
شوقِ شطرنج نے مارا ہے پیادہ کر کے
پہلے کاٹا مجھے اِک پیڑ کے پہلو سے سلیم
پھر اُڑایا ہے ہواؤں میں بُرادہ کر کے

سلیم طاہر

No comments:

Post a Comment