Sunday 15 September 2013

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں
جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں
شورِ جنوں ہوا ہے گُلو گیر کیا کروں
ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں
نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مِرا
آتی ہے شرم میں اسے تقریر کیا کروں
دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دیے بنی
اتنی سی چیز پر اسے دل گیر کیا کروں
دیکھا جو مجھ کو نزع میں، قاتل نے یوں کہا
اس جاں بہ لب پہ کھینچ کے شمشیر کیا کروں
بِن دیکھے اس کے دل کو تسلی نہیں مِرے
نقاش اس کی لے کے میں تصویر کیا کروں
اے یار دردِ دل کی مِرے بات ہے کڈھب
مت پوچھو تم سے اس کی میں تقریر کیا کروں
پوچھا میں مصحفیؔ سے ہوا کیوں تو در بدر
بولا کہ یوں ہی تھی مِری تقدیر کیا کروں

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment