کیوں اے فلک! جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی
اِک خودبخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی
گُستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
کچھ جھک کر گوش گُل میں کہا اور ہوا ہوئی
مایوس دل نے ایک نہ مانی امید کی
دنیا کا فکر، موت کا ڈر، آبرو کا دھیان
دو دن کی زندگی مرے حق میں بلا ہوئی
موتی تمہارے کان کے تھرّا رہے ہیں کیوں
فریاد کس غریب کی گوش آشنا ہوئی
برسا جو ابرِ رحمتِ خالق بروزِ حشر
سبزہ کی طرح پھر مِری نشو و نما ہوئی
بیماریوں سے چھٹ گئے اے شادؔ حشر تک
قربان اس علاج کے، اچھی دوا ہوئی
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment