Tuesday 3 September 2013

یوں تو یہ شہر تھا زنجیر بپا پہلے سے

یوں تو یہ شہر تھا زنجیر بپا پہلے سے
 اب کے لیکن یہ اسیری ہے جُدا پہلے سے
 مدتوں بعد تجھے دیکھنے نکلی آنکھیں
 تُو کہیں میرے خیالات میں تھا پہلے سے
 تُم سے آگے ہوں محبت میں تو حیران نہ ہو
 دیکھ رکھی تھی رہِ دشتِ وفا پہلے سے
اُس نے بھی برف کا ملبوس کیا اور دبیز
ہم نے بھی آنچ بڑھائی ہے ذرا پہلے سے
 شعلہ رفتار بگولوں سے میں کیا بات کروں
 اب کہاں لوگ وہ مانندِ صبا پہلے سے
 درد کے باب میں کچھ اس سے زیادہ نہ ہوا
 تیرے آنے سے ذرا اور بڑھا پہلے سے
ہم کو بھی ترکِ شناسائی کا اندازہ تھا
 تُم نے جو آج کہا، ہم نے کِیا پہلے سے
 بے سبب شاخِ شجر سے نہیں اُترے پنچھی
 تُو بھی اندازۂ افتاد لگا پہلے سے
 تخلیہ توڑ کے دیکھیں تو دِکھائی دیں گے
 اب وہ حالات نہیں ظلِ خدا! پہلے سے
 اب جو اُجڑا ہے تو کچھ تم پہ تو الزام نہیں
 قریۂ دل تھا مِرا وقفِ بلا پہلے سے
 وہ تو پہلے کے زمانے تھے کہ خوش فہم تھے ہم
 اب تو کر لیتے ہیں سامانِ بُکا پہلے سے
 تلخئ  دہر کے اے دوست! بہانے نہ بنا
 تیرے انداز تھے مائل بہ جفا پہلے سے
 کچھ تو اس بار تنک ظرف تھے ہم بھی نیرؔ
 اور کچھ اس نے ستایا تھا سوا پہلے سے 

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment