چند لفظوں کا دردمند ہوں میں
بولنے میں ذرا بلند ہوں میں
دے تو دیتا میں اپنا آپ تجھے
یار! خود کو بھی ناپسند ہوں میں
یہ اسیری بڑی اسیری ہے
اپنی سوچوں کے بیچ بند ہوں میں
اب میں بامِ فلک پہ اٹکا ہوں
آدمی کی کڑی کمند ہوں میں
اپنے جیسوں کو مار دیتا ہوں
کون کہتا ہے ارجمند ہوں میں
پار کرنا بھی، پار ہونا ہے
خود ہی میدان، خود سمند ہوں میں
بولنے میں ذرا بلند ہوں میں
دے تو دیتا میں اپنا آپ تجھے
یار! خود کو بھی ناپسند ہوں میں
یہ اسیری بڑی اسیری ہے
اپنی سوچوں کے بیچ بند ہوں میں
بے سبب لوگ مجھ سے خائف ہیں
صرف اپنے لیے گزند ہوں میںاب میں بامِ فلک پہ اٹکا ہوں
آدمی کی کڑی کمند ہوں میں
اپنے جیسوں کو مار دیتا ہوں
کون کہتا ہے ارجمند ہوں میں
پار کرنا بھی، پار ہونا ہے
خود ہی میدان، خود سمند ہوں میں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment