Tuesday, 3 September 2013

دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گھمایا ہوا شخص
 ایک دن حشر اْٹھاتا ہے گِرایا ہوا شخص
 میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
 وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
 یاد آتا ہے، تو آتا ہی چلا جاتا ہے
 کارِ بے کارِ زمانہ میں بھلایا ہوا شخص
دشتِ بے آب میں آواز، نہ الفاظ کہیں
 ہر طرف دھوپ تھی، پھر پیڑ کا سایا ہوا شخص
جب ضرورت تھی، اْسی وقت مجھے کیوں نہ ملا
 بس اِسی ضِد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہوا شخص
 کیا عجب خوانِ مقدر ہی اْٹھا کر پھینکے
 ڈانٹ کر خوانِ مقدر سے اْٹھایا ہوا شخص
 اپنی شوریدہ مزاجی کا کروں کیا نیرؔ
 رْوٹھ کے جا بھی چکا مان کے آیا ہوا شخص 

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment