Sunday 15 September 2013

ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں

ان کو جگر کی جستجو، ان کی نظر کو کیا کروں
مجھ کو نظر کی آرزو، اپنے جگر کو کیا کروں
رات ہی رات میں تمام، طے ہوئے عمر کے مقام
ہو گئی زندگی کی شام، اب میں سحر کو کیا کروں
وحشتِ دل فزُوں تو ہے، حال میرا زبُوں تو ہے
عشق نہیں جنُوں تو ہے، اس کے اثر کو کیا کروں
فرش سے مطمئن نہیں، پست ہے ناپسند ہے
عرش بہت بلند ہے، ذوقِ نظر کو کیا کروں
ہائے کوئی دوا کرو، ہائے کوئی دعا کرو
ہائے جگر میں درد ہے، ہائے جگر کو کیا کروں
اہلِ نظر کوئی نہیں اس لیے خود پسند ہوں
آپ ہی دیکھتا ہوں میں اپنے ہُنر کو کیا کروں
ترکِ تعلقات پر گر گئی برقِ التفات
راہگزر میں مل گئے، راہگزر کو کیا کروں

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment