Friday 13 September 2013

اب آنکھ سے اشکوں کی ترسیل نہیں ہوتی

اب آنکھ سے اشکوں کی ترسیل نہیں ہوتی
حالت بھی مِرے دل کی تبدیل نہیں ہوتی
ہم شرم کے ماروں کو اب شرم نہیں آتی
ذلت میں پڑے ہیں اور تذلیل نہیں ہوتی
مجھ ٹوٹے ہوئے کو پھر یہاں کون بنائے گا
تجھ سے بھی اگر میری تکمیل نہیں ہوتی
خوشیاں مِرے حصے کی رخصت پہ ہیں برسوں سے
اور دکھ ہیں جو اب ان کی تعطیل نہیں ہوتی
اس جرمِ محبت پر بس ناز ہی کرنا ہے
ہم سے تو رضیؔ اس کی تاویل نہیں ہوتی 

رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment