Monday 9 September 2013

امن کا گیت گانے والوں کے نام

امن کا گیت گانے والوں کے نام 

چھپائے رکھتے ہیں خنجر جو آستینوں میں
چھپی ہیں نفرتیں صدیوں سے جن کے سینوں میں 
عجیب بات ہے پیغامِ امن لائے ہیں
وہی جو میرے عزیزوں کو مار آئے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں کہ آؤ خُوشی منائیں ہم
بسنت رُت ہے پتنگیں بھی اب اُڑائیں ہم
گَلے کَٹے ہیں جو کشمیر میں بھلائیں اُنہیں
گَلے کا ہار بھلا کس لیے بنائیں اُنہیں
یہ سرحدیں ہیں کہ سب خاردار تاریں ہیں
سمجھ سکو تو یہ تلوار جیسی دھاریں ہیں
بتاو ان کو مِرا زخم زخم تازہ ہے
مِرے شہیدوں پہ اب تک لہُو کا غازہ ہے
ابھی تو قرض ہے مجھ پر کئی شہیدوں کا
ابھی ہے سامنا شاید مجھے یزیدوں کا
وہی بتائیں جو پیغامِ امن لائے ہیں
کہ کس نے خُون کے دریا یہاں بہائے ہیں
بغل میں رکھ کے چھری رام رام کرتے ہیں
یہ لوگ فطرتاً ایسا ہی کام کرتے ہیں

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment