Monday, 9 September 2013

خود اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے

خود اپنی حد سے نکل کر حدُود ڈھونڈتی ہے 
کہ خاک، بارِ دگر بھی قیُود ڈھونڈتی ہے 
ہوائے تُند بڑھاتی ہے خُود چراغ کی لَو 
کہ روشنی میں‌یہ اپنا وجُود ڈھونڈتی ہے 
ابھی ستارہ سا چمکا تھا میری پلکوں پر 
کوئی تو شے ہے جو بُود و نبُود ڈھونڈتی ہے
یہ میرے شعر نہیں ہیں، ترا سراپا ہے
کہ خوبصورتی اپنی نمُود ڈھونڈتی ہے 
بہار ہو کہ خزاں ہو نہیں کچھ اپنے بغیر 
یہ کائنات یقیناً شہُود ڈھونڈتی ہے
یہی تو ہے المیہ کہ رات دن دُنیا 
زیاں‌ بدست ہر اک شے میں سُود ڈھونڈتی ہے 
بکھیر دے جو مری خاک کو ہر اِک جانب 
ہوائے رُوح اِک ایسا سرُود ڈھونڈتی ہے 
خُودی کو سعدؔ کسی مرتبے پہ لا کہ جہاں 
ادائے ناز قیام و قعُود ڈھونڈتی ہے 

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment