زمانہ میری شکستِ دل کا سوال ہی کیوں اٹھا رہا ہے
ابھی مِرے زخم ہنس رہے ہیں، ابھی مرا درد گا رہا ہے
میں کب سے اس تندئ ہوا کے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا
مگر یہ اِک دستِ محرمانہ جو آج مجھ کو بجھا رہا ہے
عجیب بیگانگی کی رُت ہے، ہر ایک پہچان کھو گئی ہے
اب ایسے عالم میں دشتِ قاتل ہے ایک جو آشنا رہا ہے
میں بے سخن اور مِرا فسانہ بھی ناشنیدہ رہا ہے، لیکن
یہ آج کیا ہے، کہ جس کو دیکھو مری کہانی سنا رہا ہے
نجانے دل کی شکستگی کیلئے ہے یا حوصلے کی خاطر
کوئی ہے، جو خلوتِ سُخن میں مرے لیے مسکرا رہا ہے
کسی ہجومِ سخن سرائی میں، یاد اس کو کبھی تو کیجے
جو گفتگو بے سخن رہی ہے، وہ نغمہ جو بے صدا رہا ہے
ابھی مِرے زخم ہنس رہے ہیں، ابھی مرا درد گا رہا ہے
میں کب سے اس تندئ ہوا کے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا
مگر یہ اِک دستِ محرمانہ جو آج مجھ کو بجھا رہا ہے
عجیب بیگانگی کی رُت ہے، ہر ایک پہچان کھو گئی ہے
اب ایسے عالم میں دشتِ قاتل ہے ایک جو آشنا رہا ہے
میں بے سخن اور مِرا فسانہ بھی ناشنیدہ رہا ہے، لیکن
یہ آج کیا ہے، کہ جس کو دیکھو مری کہانی سنا رہا ہے
نجانے دل کی شکستگی کیلئے ہے یا حوصلے کی خاطر
کوئی ہے، جو خلوتِ سُخن میں مرے لیے مسکرا رہا ہے
کسی ہجومِ سخن سرائی میں، یاد اس کو کبھی تو کیجے
جو گفتگو بے سخن رہی ہے، وہ نغمہ جو بے صدا رہا ہے
پیرزادہ قاسم صدیقی
No comments:
Post a Comment