Friday 6 September 2013

بہ پاس خاطر سرکار کیا نہیں کرتے

بہ پاسِ خاطرِ سرکار کیا نہیں کرتے
ہیں دلفگار، مگر دل برا نہیں کرتے
ہماری ذات میں محشر بپا ہے مدت سے
مگر یہ ہم، کہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے
غبارِ راہ سے آگے نکل گئے ہوتے
جو رک کے پاؤں سے کانٹے جدا نہیں کرتے
وہ دل پہ وار بھی کرتا ہے، یہ بھی کہتا ہے
کہ دل کے زخم عجب ہیں، بھرا نہیں کرتے
اب اور پاؤں نہ پھیلائے اس تھکن سے کہو
کہ ہم سفر میں زیادہ رکا نہیں کرتے
شکستِ شیشۂ دل کی صدا ہی سن لیتے
وہ تند خو جو کسی کی سنا نہیں کرتے

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment