Sunday, 15 September 2013

دیکھ آئینہ میں عکس رخ جانانہ جدا

دیکھ آئینہ میں عکسِ رُخِ جانانہ جدا
میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا
سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال
گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا
آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر
شمع روتی ہے جدا، جلتا ہے پروانہ جدا
شرکتِ شیخ و برہمن سے میں نکلا جب سے
کعبہ سُونا ہے جدا، خالی ہے بت خانہ جُدا
دور میں اپنے الٰہی رہے گا کب تئیں یوں
بادہ شیشے سے جدا، شیشے سے پیمانہ جدا
درد کرتا ہے تپِ عشق کی شدّت سے مرا
سر جدا، سینہ جدا، قلب جدا، شانہ جدا
جب ہوئے ہم ہیں جدا اُس سے تو کچھ کام نہیں
غیر اُس شوخ سے اب ہوئے جدا یا نہ جدا
اس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا
کیا کہوں اپنی مصیبت کا بیاں تجھ سے غرض
جیسے وہ مجھ سے ہوا ہے مرا جانانہ جد
کارم از عشق رسیدست بجائے مخلص
کہ بمن خویش جدا گر بد و بیگانہ جدا
گوشۂ چشم میں بھی مردمِ بدبیں ہیں حسنؔ
واسطے اس کے بنا دل میں نہاں خانہ جدا

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment