Friday 13 September 2013

مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں

مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بھلا کیا اعتبار تو نے  ہزار منہ ہیں، ہزار باتیں
رقیب کا ذکر وصل کی شب پھر اُس پہ تاکید ہے کہ سنئے
تمہیں تو اِک داستاں ٹھہری، ہمیں یہ ہیں ناگوار باتیں
اُنہیں نہ کیوں عذر دردِ سر ہو جب اس طرح کا پیامبر ہو
غضب کیا، عمر بھر کی اُس نے تمام کیں ایک بار باتیں
جو کیفیت دیکھنی ہے زاہد تو چل کے تو دیکھ میکدے میں
بہک بہک کر مزے مزے کی سنائیں گے بادہ خوار باتیں
نگاہیں دشنام دے رہی ہیں ادائیں پیغام دے رہی ہیں
کبھی نہ بھولیں گے حشر تک ہم رہیں گی یہ یادگار باتیں
بہل ہی جائے گا دل ہمارا کہ ہجر کی شب کو رحم کھا کر
تمہاری تصویر بول اُٹھے گی، کرے گی بے اختیار باتیں
ہمارے سر کی قسم نہ کھاؤ قسم ہے ہم کو، یقیں نہ ہو گا
تمہارے ناپائیدار وعدے، تمہاری بے اعتبار باتیں
مِرے جنازے پہ کیوں وہ آئے کہ اُلٹے طعنے مجھے سُنائے
کہا کئے جو زباں پر آیا، سُنا کئے سوگوار باتیں
فسانۂ درد و غم سُنایا تو بولے وہ جھوٹ بولتا ہے
سنی ہوئی ہے بہت کہانی نہ ہم سے ایسی بگھار باتیں
مزا تو اُس وقت جھوٹ سچ کا کُھلے کہ ہے کون راستے پر
خدا کے آگے مِری تمہاری اگر ہوں روز شمار باتیں
ابھی سے ہے کچھ اُداس قاصد ابھی سے ہے بدحواس قاصد
سنبھل سنبھل کر سمجھ سمجھ کر  کرے گا کیا بیقرار باتیں
تمہاری تحریر میں ہے پہلو تمہاری تقریر میں ہے جادو
پھنسے نہ کس طرح دل ہمارا جہاں ہوں یہ پیچ دار باتیں
بری بلا ہے یہ داغؔ پُر فن تم اِس کو ہرگز نہ منہ لگانا
وگرنہ ڈھب پر لگا ہی لے گا  سُنیں اگر اِس کی چار باتیں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment