Tuesday 3 September 2013

وہ تن کا تماشائی رہا من نہیں دیکھا

وہ تن کا تماشائی رہا، مَن نہیں دیکھا
 دہلیز تک آیا بھی تو آنگن نہیں دیکھا
 چہرے پہ کھلی دھوپ میں اس درجہ مگن تھا
 آنکھوں سے برستا ہوا ساون نہیں دیکھا
 اِس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے اُدھر سے
 دُکھ دیتے ہوئے یار نے دامن نہیں دیکھا
 دروازے پہ آ کر جو کسی نے بھی صدا دی
 دل کھول دیا، دوست کہ دُشمن نہیں دیکھا
 اک بار ہی آیا تھا وہ خسِ خانۂ دل میں
پھر میرے جہاں گرد نے یہ بَن نہیں دیکھا
 کیوں میری تمنا کی طرف دیکھ رہے ہو
 کیا تم نے کبھی آگ پہ خِرمن نہیں دیکھا
 اُس نے بھی تبسم کا ہُنر دیکھ کے نیرؔ
 آلام چھُپانے کا مِرا فن نہیں دیکھا

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment