Friday 13 September 2013

ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے

تِرے اثر سے نِکلنے کے سو وسِیلے کِیے
مگر وہ نَین کہ تُو نے تھے جو نشِیلے کِیے
تِرے خیال نے دِل سے اُٹھائے وہ بادل
پھر اُسکے بعد مناظر جو ہم نے گِیلے کِیے
ابھی بہار کا نشہ لہُو میں رقصاں تھا
کفِ خزاں نے ہر اِک شے کے ہات پِیلے کِیے
اُدھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ
اِدھر خیال نے پنچھی تمام نِیلے کِیے
محبتوں‌کو تُم اتنا نہ سَرسَری لینا
محبتوں نے صف آراء کئی قبِیلے کِیے
یہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مُٹھّی میں
جسے بچانے کے دن رات میں‌ نے حِیلے کِیے
کمالِ نغمہ گری میں‌ ہے فن بھی اپنی جگہ
مگر یہ لوگ کسی درد نے سُرِیلے کِیے

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment