تِرے اثر سے نِکلنے کے سو وسِیلے کِیے
مگر وہ نَین کہ تُو نے تھے جو نشِیلے کِیے
تِرے خیال نے دِل سے اُٹھائے وہ بادل
پھر اُسکے بعد مناظر جو ہم نے گِیلے کِیے
ابھی بہار کا نشہ لہُو میں رقصاں تھا
اُدھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ
اِدھر خیال نے پنچھی تمام نِیلے کِیے
محبتوںکو تُم اتنا نہ سَرسَری لینا
محبتوں نے صف آراء کئی قبِیلے کِیے
یہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مُٹھّی میں
جسے بچانے کے دن رات میں نے حِیلے کِیے
کمالِ نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ
مگر یہ لوگ کسی درد نے سُرِیلے کِیے
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment