Tuesday, 3 September 2013

یار دل جوئی کی زحمت نہ اٹھائیں جائیں

یار دلجوئی کی زحمت نہ اٹھائیں، جائیں
 رو چکا ہوں نہ مجھے اور رُلائیں، جائیں
 مجھ سے کیا ملنا کہ میں خود سے جُدا بیٹھا ہوں
 آپ آ جائیں مجھے مجھ سے ملائیں، جائیں
 حجرۂ چشم، تو اوروں کے لیے بند کیا
 آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں، جائیں
 اتنا سانسوں سے خفا ہوں کہ نہیں مانوں گا
 لوگ رو رو کے نہ اب مجھ کو منائیں، جائیں
 زندگی! تُو نے دُکاں کھول کے لکھ رکھا ہے
اپنی مرضی کا کوئی رَنج اٹھائیں، جائیں
 ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
 کون سا وِرد کرائیں کہ بلائیں، جائیں
 اور بھی آئے تھے درمانِ محبت لے کر
 آپ بھی آئیں، نیا زخم لگائیں، جائیں
 آمد و رفت کو اک دنیا پڑی ہے نیرؔ
 دل کی بستی کو نہ بازار بنائیں، جائیں

شہزاد نیر

1 comment:

  1. بہت خوب انتخاب :)
    انتخآب کا ذریعہ شعرا کا مجموعہ کلام ہے یا کچھ اور؟؟؟؟

    ReplyDelete